حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کریم اہلبیت، نواسۂ رسول حضرت امام حسن مجتبی علیہ السلام کی شب ولادت با سعادت پر فارسی شعر و ادب کی اہم شخصیات اور شعراء نے رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے ملک میں شعر و نظم کے رجحان میں اضافے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے شعر کو ایک مؤثر اور باقی رہنے والا ذریعہ بتایا۔ انھوں نے عالم اسلام کی تاریخ کے کچھ حصوں میں شعر کے فروغ اور اس کی بے نظیر اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فارسی شعر کی ممتاز خصوصیات میں سے ایک، عرفان اور روحانیت کا سرمایہ تیار کرنا ہے جس کی جھلک فارسی اشعار کی چوٹیوں پر اور فردوسی، نظامی، مولانا روم، سعدی اور حافظ سے نمایاں شاعروں کے حکمت آمیز اور عرفان آمیز اشعار میں دکھائي دیتی ہے۔
انھوں نے منگولوں کے حملوں، تاراجی اور لوٹ مار جیسے ایرانی تاریخ کے سخت ترین دور میں فارسی شعر کے سرمائے اور اس کی اصل خصوصیات کے تحفظ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ البتہ آج کے منگولوں یعنی مغرب والوں کا ظاہری حلیہ اور ان کی تاراجی مختلف ہے جو سامراجی دور میں ان کے سیاہ جرائم کی تاریخ کے علاوہ ہمارے دور میں بھی وہ ایران پر حملے کے لیے صدام جیسے پاگل کتے کو طرح طرح کے ہتھیاروں خاص طور پر کیمیاوی ہتھیاروں سے لیس کر کے یا اس کے بعد پابندیوں کے ذریعے تاراجی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے دواؤں پر پابندی اور مختلف بہانوں سے ویکسین نہ دیے جانے کو، ایران پر مغرب والوں کے حملے کے کچھ دوسرے نمونوں کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کے لوگوں کو اشیائے خورونوش سے محروم کر دینا ان کے بس میں ہوتا تو وہ یہ کام بھی ضرور کرتے۔
انھوں نے اسی طرح کہا کہ ایران پر بدخواہوں کے مختلف حملوں میں سے ایک، میڈیا وار اور ان کی جانب سے جھوٹ، افواہ اور انحرافی باتیں پھیلانے کے لیے ہزاروں میڈیا اسٹیشنوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس حملے سے دشمن کا مقصد، فکری و معرفتی مضبوط پہلوؤں کو ختم کرنا، قومی خودمختاری و استقامت کے جذبے نیز اسلامی اتحاد اور اسلامی عمل کو کمزور کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے عورت کی دینداری کو کمزور بنانے کو ایران کے خلاف حملوں کا ایک اور مقصد بتایا اور اسلامی انقلاب کی کامیابی اور اس کے بعد کے مراحل میں خواتین کے مؤثر کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مغرب والوں کو ایرانی عورت اور اس کے حقوق کا خیال نہیں ہے بلکہ وہ ایرانی عورت سے کینہ رکھتے ہیں اور جھوٹ بول کر اپنے آپ کو عورت کی آزادی اور اس کے حقوق کا طرفدار بتاتے ہیں۔
انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ مغرب والوں کو کسی بھی طرح سے انسانی حقوق کا دعوی زیب نہیں دیتا، کہا کہ مغرب والے تو انسانی حقوق کے دشمن ہیں اور ان کے انسانی حقوق کو تو سبھی داعش، انسانوں کو زندہ جلانے یا پانی میں ڈبانے، یا ایم کے او اور صدام کی حمایت یا غزہ اور فلسطین میں جرائم کی حمایت میں دیکھ چکے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ نے مغرب کی جانب سے تہران کی سڑکوں پر مومن نوجوانوں کے قتل اور قتل عام کی حمایت کو، مغرب کے انسانی حقوق کی طرفداری کے دعوے کے جھوٹے ہونے کا ایک اور مصداق بتایا اور کہا کہ آرمان علی وردی اور روح اللہ عجمیان جیسے ہمارے انتہائي نیک اور پاکیزہ نفس نوجوانوں کو ایذائيں دے کر اور مغربی میڈیا کے ورغلانے اور ٹریننگ کے ذریعے قتل کیا گيا۔
انھوں نے دشمن، اس کے اہداف، اس کے طریقہ کار اور اس کے حملوں کی روش کی شناخت کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی سافٹ وار کے مختلف پہلوؤں کو پہچاننا سبھی کے لیے ضروری ہے لیکن ثقافت و ہنر کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے زیادہ ضروری ہے تاکہ وہ خود بھی پیچھے نہ ہٹیں اور دوسروں کو بھی دشمن کے حملوں، تاراجی اور لوٹ مار کی طرف سے ہوشیار کریں۔
انھوں نے ملک میں بے شمار اچھے دل والے، مومن اور انقلابی شاعروں کے وجود پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاعر کے جذبات، نازک اور محبت آمیز ہوتے ہیں لیکن مسائل کا سامنا کرتے ہوئے جذبات سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ غوروفکر کے ساتھ اور موقع کی صحیح شناخت کے ذریعے، ہنر کا استعمال کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے۔
اس ملاقات کے آغاز میں دسیوں نوجوان اور بزرگ شعراء نے رہبر انقلاب اسلامی کے سامنے اپنے اشعار پڑھے۔ اس سے پہلے مغرب اور عشاء کی نماز آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کی اقتداء میں ادا کی گئي۔